جمال و حسن کی وہ انجمن میں کیا بیٹھے
جمال و حسن کی وہ انجمن میں کیا بیٹھے
متاع ہوش و خرد ہی کو جو گنوا بیٹھے
جنہیں ادب سے علاقہ نہ فکر و فن سے لگاؤ
ہماری بزم میں ایسے بھی لوگ آ بیٹھے
کبھی بزرگوں سے میراث میں جو پائی تھی
وہ ساری قدریں وہ تہذیب ہم بھلا بیٹھے
میں سوچتا ہوں وہ انسان ہیں کہ حیواں ہیں
ہیں کون جو نہ کبھی مل کے ایک جا بیٹھے
انہیں سے نام تمدن کو جوڑ رکھا ہے
جو اپنی دولت تہذیب بھی لٹا بیٹھے
پھر ایسے گھر میں ہو کیا کوئی قیمتی سامان
حسد کی آگ سے جو اپنا گھر جلا بیٹھے
امیر قافلہ کو ہو تھکن کا جب احساس
تو راستے میں نہ کیوں تھک کے قافلہ بیٹھے
انہیں ملے گا نہ اقبالؔ منزلوں کا پتا
وہ راہزن ہی کو جو رہنما بنا بیٹھے