جمال تیرا ترا حسن آئنہ تیرا

جمال تیرا ترا حسن آئنہ تیرا
خلاف ہو کے بھی کوئی کرے گا کیا تیرا


ہوا چمن میں بکھیر آتی ہے تری خوشبو
کبھی ہواؤں سے کوئی نہ بس چلا تیرا


مری زبان نے پایا ہے آبلوں کا خراج
جو بھول کے بھی کبھی نام لے لیا تیرا


جو اب بھی رکھے ہے زندہ لہو کی قیمت کو
ہے معرکوں میں فقط ایک معرکہ تیرا


یوں رزم آب و عطش میں شکست آب کو دی
وفا کدوں میں وفا نام پڑ گیا تیرا


تو کر کے آ بھی گیا سیر آسمانوں کی
ملا نہ ڈھونڈے کسی کو بھی نقش پا تیرا


خبر کتابوں میں لکھی ہے تیرے آنے کی
اسی سے دیکھتا رہتا ہوں راستہ تیرا


نجابتوں کا جو مسکن ہے آج تک اقبالؔ
خدا کا شکر وہیں سے ہے سلسلہ تیرا