جو تھے اڑان پہ طائر وہی شکار ہوئے

جو تھے اڑان پہ طائر وہی شکار ہوئے
یہ سانحے بھی عجب تھے جو بار بار ہوئے


ہماری آنکھوں کے حلقے ریاضتوں کے گواہ
ہمی خرابیٔ قسمت کے ذمے دار ہوئے


صبا نے جھاڑا بھی دامن تو کیسے پھولوں پر
جو ضبط حال میں بکھرے نہ مشک بار ہوئے


تمام عمر اسی حادثے کا ساتھ رہا
ادھر مکان بنایا کہ سنگسار ہوئے


ہمارے جملہ حقوق اب بھی بیچے جاتے ہیں
یہ اور بات خریدار ہوشیار ہوئے