جو ماہتاب میں ہے وقت شب جمال ترا

جو ماہتاب میں ہے وقت شب جمال ترا
ہے صبح دم وہی خورشید میں جلال ترا


صبا میں ہے جو لطافت تری لطافت ہے
جمال ہے جو گلوں میں ہے وہ جمال ترا


کھنچی ہوئی چلی آتی ہے اس میں اک دنیا
سما رہا ہے مرے دل میں یوں خیال ترا


فنا سے کام تجھے کیا کہ جاوداں تو ہے
نہیں زوال سے نادم کبھی کمال ترا


ہے ذرہ ذرہ منورؔ تری تجلی سے
کچھ ایک مہر مبیں میں نہیں جلال ترا