جو آسماں پہ گھٹا چھا گئی تو کیا ہوگا

جو آسماں پہ گھٹا چھا گئی تو کیا ہوگا
یکایک آپ کی یاد آ گئی تو کیا ہوگا


ابھی تو دل ہے غم عاشقی سے بیگانہ
نظر نظر سے جو ٹکرا گئی تو کیا ہوگا


رہے جو ہوش بھی قائم نہ وقت نظارہ
نگاہ شوق بھی گھبرا گئی تو کیا ہوگا


محال جرأت اظہار مدعا نہ سہی
جو اس جبیں پہ شکن آ گئی تو کیا ہوگا


کہاں رہے گا گلوں کا یہ ناز نکہت و رنگ
خزاں بہار سے ٹکرا گئی تو کیا ہوگا


اگرچہ دل میں لیے ہوں ہزارہا شکوے
نگاہ یار جو شرما گئی تو کیا ہوگا


ملائکہ نہ کریں ناز اپنے سجدوں پر
مری جبیں یہ شرف پا گئی تو کیا ہوگا


چلا ہوں اپنے مقدر کے پیچ سلجھانے
وہ زلف اور بھی بل کھا گئی تو کیا ہوگا


وہ بات راز کی پنہاں جو دل میں ہے ندرتؔ
درون شعر اگر آ گئی تو کیا ہوگا