جس دن سے رابطہ مرا دلبر سے کٹ گیا
جس دن سے رابطہ مرا دلبر سے کٹ گیا
رشتہ ندی کا جیسے سمندر سے کٹ گیا
ہم لوگ آ کے بس گئے ہیں جب سے شہر میں
اخلاق گاؤں والا وہ گھر گھر سے کٹ گیا
ہر کوئی آج غرق ہے اپنی ہی ذات میں
یوں رفتہ رفتہ آدمی باہر سے کٹ گیا
ممکن ہے روز حشر شہیدوں میں ہو شمار
اپنا گلا تو پیار کے خنجر سے کٹ گیا
نادم ہیں نذرؔ ہم تو ترقی میں شہر کی
بڑھیا کا جھونپڑا کہیں منظر سے کٹ گیا