جگر کا درد جگر میں رہے تو اچھا ہے

جگر کا درد جگر میں رہے تو اچھا ہے
جو بات گھر کی ہو گھر میں رہے تو اچھا ہے


مآل کار سے ڈرنا تو بزدلی ہے مگر
مآل کار نظر میں رہے تو اچھا ہے


جو گر سکے نہ کبھی آنکھ سے گہر بن کر
وہ اشک دیدۂ تر میں رہے تو اچھا ہے


رواں دواں ہے ادھر عمر جانب منزل
ادھر یہ جام سفر میں رہے تو اچھا ہے


پرے کرو نہ ابھی گیسوؤں کو عارض سے
یہ شام قرب سحر میں رہے تو اچھا ہے


عجیب شے ہے حقیقت میں سوز محرومی
فغاں تلاش اثر میں رہے تو اچھا ہے


جلے جلے نہ جلے آشیاں مگر یہ سحرؔ
نگاہ برق و شرر میں رہے تو اچھا ہے