جوانوں میں محبت نیم جاں معلوم ہوتی ہے

جوانوں میں محبت نیم جاں معلوم ہوتی ہے
بڑے بوڑھوں میں لیکن نوجواں معلوم ہوتی ہے


ٹھکانے کا کوئی فقرہ یہ فرماتی نہیں ورنہ
تری ماں تو بڑی معقول ماں معلوم ہوتی ہے


دیا ہے حق نے میری ساس کو کیا پھول سا چہرہ
بروز عید بھی یہ نوحہ خواں معلوم ہوتی ہے


مرے محبوب تیرے حسن کا یہ اک کرشمہ ہے
ہماری مفلسی اب جاوداں معلوم ہوتی ہے


الف نے ب کے غم میں زہر کھا کر خودکشی کر لی
بڑی سوچ اور پرانی داستاں معلوم ہوتی ہے


کنارہ میری کشتی کے مقدر میں نہیں شاید
نحوست ناخدا کی بے کراں معلوم ہوتی ہے


جناب شیخ اس سے روز ہی بے نقطہ سنتے ہیں
یہ شیخانی کوئی اہل زباں معلوم ہوتی ہے


قطب مینار سے گر کر مرا تو ڈاکٹر بولے
کہ اس کی موت ہم کو ناگہاں معلوم ہوتی ہے


بلا سے یہ گھسیٹی جا رہی ہیں راہ الفت میں
تری زلفوں کی لمبائی کہاں معلوم ہوتی ہے


بچارے ریل کے انجن نے بھی کانوں میں انگلی دی
غم جاناں کے ماروں کی فغاں معلوم ہوتی ہے


بیاں کیا ہو نزاکت وہ تو وہ نازک بدن نکلا
گراں جس کی سماعت کو اذاں معلوم ہوتی ہے