جلووں سے نہ آنکھ جھپکتی ہے جلووں کو نہ آنکھ ترستی ہے

جلووں سے نہ آنکھ جھپکتی ہے جلووں کو نہ آنکھ ترستی ہے
ہم نے وہ پیالہ پی ہی لیا جس میں نہ خمار نہ مستی ہے


کچھ لمحے ہیں جن لمحوں میں احساس اسے چھو لیتا ہے
عالم سے ادھر جو عالم ہے ہستی سے ادھر جو ہستی ہے


ہے روح کی حالت کندن کی جتنا ہی تپے گی نکھرے گی
غم ایک کسوٹی ہے جس پر یہ فطرت ہم کو کستی ہے


حکمت کی بھی کھیتی غرق ہوئی حیرت کا بھی صحرا ڈوب چلا
گھنگھور گھٹا ہے یاد ان کی کیا ٹوٹ کے دل پہ برستی ہے


ہر سیر میں تھی اک بات مگر کیا اب کے سفر کی بات کہیں
ہم اس بستی میں جا نکلے ہستی سے پرے جو بستی ہے


اس دل سے ہو کر دل سے ادھر اک بستی ہے جس بستی میں
ہر جنس کی نایابی ہے مگر اک جنس تماشا سستی ہے