جب اس سے ترک ملاقات کا ارادہ کیا
جب اس سے ترک ملاقات کا ارادہ کیا
تب اس نے دامن دل کو ذرا کشادہ کیا
بس اک نگاہ سے اس کی سدا رہے مخمور
کبھی نہ جام اٹھایا نہ شغل بادہ کیا
فریب دے کے بھی اس کا قصور کم ہی رہا
کہ ہم نے اس پہ بھروسہ بھی کچھ زیادہ کیا
شرافت اور نجابت کا اس کو غرہ ہے
حسب نسب سے سوا ذکر خانوادہ کیا
جہان شعر و ادب میں ہمارا ذکر بھی ہے
کہ ہم نے میرؔ سے غالبؔ سے استفادہ کیا
مری غیور طبیعت پہ اس کو حیرت ہے
کہ عرض شوق کا اس سے نہ پھر اعادہ کیا
یہ اور بات کہ ناکامیاں مقدر تھیں
حبابؔ جو بھی کیا ہم نے بالارادہ کیا