جب تک تری آنکھوں کے کنول کھلتے رہیں گے
جب تک تری آنکھوں کے کنول کھلتے رہیں گے
کہنے کو غزل ہم کو سبب ملتے رہیں گے
منزل سے بھی آگے کسی منزل کے نشاں ہیں
کچھ اور بھی نقش کف پا ملتے رہیں گے
اک درد بنا دیتا ہے اشکوں کو حنائی
پت جھڑ میں بھی کچھ پھول یوں ہی کھلتے رہیں گے
معلوم نہیں عشق کا حاصل ہمیں نغمہؔ
وہ ہم سے بچھڑ جائیں گے یا ملتے رہیں گے