جب شب فرقت کی تاریکی سے گھبراتا ہوں میں
جب شب فرقت کی تاریکی سے گھبراتا ہوں میں
تیری یادوں سے دل مضطر کو بہلاتا ہوں میں
جب کسی زہرا جبیں کو سامنے پاتا ہوں میں
ہوش کی ہر دسترس سے دور ہو جاتا ہوں میں
آرزوئیں لاکھ ہوتی ہیں مرے دل میں مگر
سامنے آتے ہو جب تم کچھ نہ کہہ پاتا ہوں میں
سست رو ہوتی ہے جب راہ طلب میں جستجو
شعلۂ اعظم و عمل سے دل کو گرماتا ہوں میں
چھوڑ دے اس بے مروت کی تمنا چھوڑ دے
رات دن یہ بات اپنے دل کو سمجھاتا ہوں میں
جب کبھی گزرے دنوں کی یاد آتی ہے مجھے
دل تڑپتا ہے مرا اور اشک برساتا ہوں میں
ساغر صہبا سے نیرؔ کیا غرض مجھ کو بھلا
پی کے ان کی مے فشاں نظروں سے لہراتا ہوں میں