جب خزاں کے چہرے پیلے ہو گئے
جب خزاں کے چہرے پیلے ہو گئے
باغ کے سب پھل رسیلے ہو گئے
ذکر تیرا جب چھڑا جان سخن
تلخ لہجے بھی سریلے ہو گئے
جب چڑھی اس پر جوانی کی پرت
زاویے اس کے کٹیلے ہو گئے
تیری فرقت نے گھلا کر رکھ دیا
میرے سب ملبوس ڈھیلے ہو گئے
میرؔ کا دیوان گھر میں کیا رکھا
بام و در اشکوں سے گیلے ہو گئے
چند ذرے بد گمانی کے تھے جو
نفرتوں کے اب وہ ٹیلے ہو گئے
فاصلے جو تھے ہمارے درمیاں
قربتوں کے اب وسیلے ہو گئے
ہم نے جو آسانیوں کے گل چنے
خار سے بڑھ کر نکیلے ہو گئے