آنکھوں میں مری خواب بسر ہونے لگا ہے

آنکھوں میں مری خواب بسر ہونے لگا ہے
شاید ترا نیندوں سے گزر ہونے لگا ہے


جز تیرے سبھی سے مجھے ہونے لگی وحشت
اتنا تری چاہت کا اثر ہونے لگا ہے


یوں دست مسیحائی رکھا زخموں پہ تو نے
ہر زخم مرا رشک قمر ہونے لگا ہے


شاید مرے کمرے میں بھی اب روشنی آئے
پیدا مری دیوار میں در ہونے لگا ہے


تلخی یہ کہاں کی ترے لہجے میں در آئی
ہر لفظ ترا سینہ سپر ہونے لگا ہے


وہ آگ لگائی ہے ترے ہجر نے دل میں
ہر لمحہ جدائی کا شرر ہونے لگا ہے


اب رازؔ چھپائے نہیں چھپتی مری وحشت
ظاہر پہ بھی باطن کا اثر ہونے لگا ہے