ہجر تیرا تیری قربت کا بہانہ ہو گیا
ہجر تیرا تیری قربت کا بہانہ ہو گیا
یاد میں تیری ہمارا آنا جانا ہو گیا
آج تجھ کو غیر کے ہم راہ خوش دیکھا تو پھر
غم جو تھا تجھ سے بچھڑنے کا توانا ہو گیا
عمر بھر صحرا نوردی کا ہوا انجام یہ
رفتہ رفتہ دل میں وحشت کا ٹھکانہ ہو گیا
سنگ باری میں تسلسل کا نتیجہ یہ ہوا
تنگ آ کر دل مرا آئینہ خانہ ہو گیا
دیکھتے ہی دیکھتے تجھ سے تعلق کے سبب
میں ہجوم شہر میں اک دن یگانہ ہو گیا