حقیقتوں کو یہاں خواب لکھا جاتا ہے
حقیقتوں کو یہاں خواب لکھا جاتا ہے
یہاں اندھیروں کو مہتاب لکھا جاتا ہے
امیر شہر کا ارشاد بنتا ہے اخبار
سو تشنہ لب کو بھی سیراب لکھا جاتا ہے
کسی کو ملتی ہے کشتی کسی کو پتواریں
ہمارے حصے میں گرداب لکھا جاتا ہے
ہماری چیخ پہ دھرتا نہیں ہے کان کوئی
تمہاری اف پہ بھی اک باب لکھا جاتا ہے
میں پوچھتا ہوں ہزاروں سوال اس سے مگر
جواب میں فقط آداب لکھا جاتا ہے
میں ایک ایسے سفر پر ہوں دوستو کہ جہاں
مصیبتوں کو بھی اسباب لکھا جاتا ہے