بسنے لگی ہیں خواہشیں دل کے دیار میں
بسنے لگی ہیں خواہشیں دل کے دیار میں
کھلنے لگے ہیں پھول مرے خار زار میں
آزادی میری روح کو دلوائے گی اجل
کب تک رکھے گی زندگی اپنے حصار میں
میں اس کے واسطے کبھی لاکھوں میں ایک تھا
لاتا نہیں ہے اب وہ کسی بھی شمار میں
مجھ کو یقین تھا وہ فقط میرے ساتھ ہے
کھایا ہے میں نے دھوکہ اسی اعتبار میں