جانے کیا بات ہے پتا ہی نہیں

جانے کیا بات ہے پتا ہی نہیں
خط مجھے اس نے پھر لکھا ہی نہیں


پیار کے راستے میں وہ مجھ سے
ایسا بچھڑا کہ پھر ملا ہی نہیں


میں تو اس شہر سے چلا آیا
سچ وہاں کوئی بولتا ہی نہیں


توڑ دیتے سماج کی دیوار
تم نے ایسا مگر کیا ہی نہیں


آپ کی بات مان لے شاید
دل مری بات مانتا ہی نہیں


کیوں نہ کر لیں غموں سے سمجھوتہ
اب کوئی اور راستہ ہی نہیں


اک عبادت بھی شاعری ہے نسیمؔ
صرف صاحب یہ مشغلہ ہی نہیں