عشرت حال میں اندیشۂ فردا کرنا
عشرت حال میں اندیشۂ فردا کرنا
میرے مشرب میں نہیں یہ غم بے جا کرنا
فکر انجام نہیں فرض کسی مے کش پر
ہاں مگر بادۂ آغاز کی پروا کرنا
محو نظارہ زمانہ ہے مگر حاصل دید
ایسا آساں نہیں دنیا کا نظارا کرنا
حاصل زیست ہے کیا مے کدۂ ہستی میں
تلخیٔ بادۂ امید گوارا کرنا
دیکھ اے بے خودیٔ شوق پرستش ہوشیار
حسن خوددار کو محفل میں نہ رسوا کرنا
لاکھ معیوب نہ ہو پھر بھی نہیں مستحسن
حضرت دوست میں اظہار تمنا کرنا
سو طریقے ہیں پرستش کے اگر ذوق ہو کچھ
کیا بڑی بات ہے کوئی اسے سجدہ کرنا
ترک مے کفر ہے اے رازؔ مرے مشرب میں
عین ایماں ہے سر ساغر و مینا کرنا