عشق میں کوئی ہمسری کرتا

عشق میں کوئی ہمسری کرتا
ہم کو الزام سے بری کرتا


ایک بوتل میں وہ سما جاتی
اس کو جادو سے میں پری کرتا


چھیڑ معصوم سی چلا کرتی
وہ بھی ہنس ہنس کے دلبری کرتا


اس نے جنگل جلا دیے لیکن
شاخ اک پیڑ کی ہری کرتا


چاند آتا جو روز آنگن میں
ساتھ میرے سخن وری کرتا


شاعری ہم پہ چھوڑ دینی تھی
مرزا غالبؔ سپہ گری کرتا


ایک دن تجھ کو ڈوب جانا تھا
جو بھی کرتا تو سرسری کرتا


خاک ہوتا وہ سربلندی میں
پائمالی میں سروری کرتا


شعر کہتا نہیں اگر میں بھی
خرقہ پہنے قلندری کرتا


وہ جوانی ایازؔ ایسی تھی
بات میں بھی کھری کھری کرتا