اس طرح کے لطف سے کوئی کہاں تک شاد ہو
اس طرح کے لطف سے کوئی کہاں تک شاد ہو
لطف کے پردے میں جب بیداد ہی بیداد ہو
ایسے جینے سے کوئی کیا مطمئن کیا شاد ہو
ہر نفس جب آہ و زاری ہر نفس فریاد ہو
میری بربادی کا قصہ میرے غم کی داستاں
اے وفا نا آشنا شاید تجھے کچھ یاد ہو
بن ترے محسوس یوں کرتا ہوں جیسے زندگی
سربسر مجھ پر کوئی الزام بے بنیاد ہو
رفتہ رفتہ مٹ رہے ہیں میری بربادی کے نقش
او ستم گر پھر کوئی تازہ ستم ایجاد ہو
اس طرح سونی ہے عاصیؔ زندگی ان کے بغیر
جس طرح کوئی مکاں مدت سے غیر آباد ہو