اس دل کو تہ تیغ سلا کیوں نہیں دیتے
اس دل کو تہ تیغ سلا کیوں نہیں دیتے
ہر روز کا جھگڑا ہے مٹا کیوں نہیں دیتے
چہرے سے نقاب آپ اٹھا کیوں نہیں دیتے
ہلکی سی جھلک ایک دکھا کیوں نہیں دیتے
حیراں ہوں کہ یہ شوخ و حسیں ماہ جبیں لوگ
بدلے میں وفاؤں کے وفا کیوں نہیں دیتے
رہزن ہو تو پھر ساتھ چلے آتے ہو کیونکر
رہبر ہو تو منزل کا پتہ کیوں نہیں دیتے
غم اور بھی دل کا جو شب ہجر بڑھائے
اس شمع فسردہ کو بجھا کیوں نہیں دیتے
اس دل کی تباہی پہ پشیماں ہو اگر تم
اس خانہ ویراں کو بسا کیوں نہیں دیتے
وہ بات کہ جو ترک تعلق کا سبب ہے
وہ بات ہمیں آپ بتا کیوں نہیں دیتے
بیتاب محبت میں ہو گر اتنے ہی نیرؔ
افسانۂ دل ان کو سنا کیوں نہیں دیتے