اس دور میں ایسا کوئی انسان نہیں ہے
اس دور میں ایسا کوئی انسان نہیں ہے
جو سوزش پنہاں سے پریشان نہیں ہے
لے ڈوبی تمنائے گہر مجھ کو بھی یارو
دریا سے ابھرنے کا اب امکان نہیں ہے
ہم پر ہی بس الزام لگا جلتے دنوں کا
اک تلخ حقیقت ہے یہ بہتان نہیں ہے
ہر گام پہ ہے دل کے لٹیروں کا بسیرا
اس راہ پہ چلنا کوئی آسان نہیں ہے
احساس کے ساحل پہ کھڑا سوچ رہا ہوں
لفظوں کے سمندر میں وہ طوفان نہیں ہے
بھونرے تو بہت چاؤ سے پھر آتے ہیں انجمؔ
اور آج مری میز پہ گلدان نہیں ہے