اک صبح عارضی تھی کہ پل میں گزر گئی

اک صبح عارضی تھی کہ پل میں گزر گئی
اک شام مستقل تھی کہ ظالم ٹھہر گئی


جلوے کے ازدحام میں کچھ سوجھتا نہیں
نظارے کی ہوس میں متاع نظر گئی


یارو یہ کس نوائے محبت کی گونج تھی
دیکھو تو ساری بزم کو دیوانہ کر گئی


ان کی تو اک ادائے تغافل کی بات تھی
میرے تو خواب شوق کی دنیا بکھر گئی


سمٹی تو ایک گوشے میں پنہاں تھی وہ نگاہ
چھلکی تو کائنات کو سیراب کر گئی


آوارگیٔ شوق میں گزرے گی اب کہاں
اک شب تو مے کدہ کی فضا میں گزر گئی


جلتی ہے سر برہنہ کڑی دھوپ میں حیات
وہ چھاؤں عہد رفتہ کی آخر کدھر گئی


مرنے لگے ہو شوخ نظاروں پہ آج کل
سنجیدگی مزاج کی ناظمؔ کدھر گئی