اک خاک زادہ چلنے لگا لا الہ کی سمت

اک خاک زادہ چلنے لگا لا الہ کی سمت
یعنی کہ گامزن میں ہوا کربلا کی سمت


مجھ کو کسی طبیب سے کوئی غرض نہیں
بیمار پڑ کے آتا ہوں خاک شفا کی سمت


جب منتظر تھے حر کے وہاں پر حسین خود
کیسے فنا سے آتا نہ پھر حر بقا کی سمت


کرب و بلا میں جاتا ہوں آنکھوں میں نم لیے
نعرہ لگا کے جاتا ہوں مشکل کشا کی سمت


مولا تمہارا غم بھی منانے کو یہ ملک
عرش بریں سے آتے ہیں فرش عزا کی سمت


کیسے بھلا نہ روئیں اسے دیکھ کر حسین
غازی سا شیر بھائی چلا القمہ کی سمت


دیکھو غزل سے مرتبہ اس کا بلند ہے
چھوڑو غزل کو آؤ سحرؔ مرثیہ کی سمت