اک بات یہی شکر منانے کے لئے ہے
اک بات یہی شکر منانے کے لئے ہے
اب پاس نہیں کچھ بھی گنوانے کے لئے ہے
اس کو یہ سہولت ہے کہ جب چاہے وہ روٹھے
وہ جانتا ہے کوئی منانے کے لئے ہے
یہ باد صبا خوشبو پرندوں کی صدائیں
ہر شے اسے کھڑکی پہ بلانے کے لئے ہے
کچھ پیڑ ہرے رہتے ہیں پت جھڑ ہو کہ ساون
چہرے پہ تبسم یہ بتانے کے لئے ہے
ہر شعر میں آ جاتا ہے کیوں ذکر اسی کا
یہ شوق سخن جس کو بھلانے کے لئے ہے