گناہ عشق میں اس بات کی تسکین ہوتی ہے

گناہ عشق میں اس بات کی تسکین ہوتی ہے
ہوا ہو جرم گہرا تو سزا سنگین ہوتی ہے


کھلے رکھتے ہو دروازے دریچے بارہا تم کیوں
سنو دنیا تماشوں کی بڑی شوقین ہوتی ہے


سفر میں دھوپ ہے تو کیا اداسی اوڑھ لو گے تم
ملے سائے جو تھے ان کی بڑی توہین ہوتی ہے


ذرا رو لو کہیں آنسو اگر یہ سوکھ جائیں تو
نہیں ہیں زخم بھرتے اور زباں نمکین ہوتی ہے


تمہارا لوٹ کے آنا ہماری خواہش بے جا
مگر بھرتے ہیں جب بھی دم دم آمین ہوتی ہے


سہارا بن نہیں پاتے بھلے خود غرض کچھ بچے
مصیبت ہو مگر ان پہ تو ماں غمگین ہوتی ہے


سیاست اور دولت جب سیاہی سوکھ لیتے ہیں
کسی کے خون سے تصویر تب رنگین ہوتی ہے