اک بار پھر کہو اسی ناز و ادا کے ساتھ
اک بار پھر کہو اسی ناز و ادا کے ساتھ
تو نے تمام عمر گزاری وفا کے ساتھ
ساقی شراب ناب مزہ دے رہی ہے اور
اس اتفاق وقت اس ابر و ہوا کے ساتھ
یہ کیا بتائیں ہم کہ شریک سفر تھا کون
منزل پہ آ گئے ہیں کسی رہنما کے ساتھ
جور و جفا میں بخل نگاہ کرم میں عذر
یہ کیا سلوک ہے دل درد آشنا کے ساتھ
اس سنگ دل کو رحم نہ آئے تو کیا کروں
سر رکھ دیا ہے پاؤں پہ کس التجا کے ساتھ
اس التفات خاص پہ قربان جان و دل
وہ مجھ سے پیش آئے ہیں کس اعتنا کے ساتھ
ہم نے یہ دل سے عہد کیا ہے کہ تا حیات
ندرتؔ وفا کریں گے ہم اس بے وفا کے ساتھ