اک اجنبی جو شناسا دکھائی دیتا ہے

اک اجنبی جو شناسا دکھائی دیتا ہے
نہ جانے کس لئے تنہا دکھائی دیتا ہے


تمہارے شوق گریزاں کا ہے ثمر یہ بھی
کہ میری آنکھ میں دریا دکھائی دیتا ہے


مجھے بتا میرے خالق کہ کس خطا کے طفیل
بجھا سا میرا ستارا دکھائی دیتا ہے


لٹی لٹی سی یہ دنیا اداس اداس جہاں
مرے نصیب کی پتا دکھائی دیتا ہے


ہے اجلی صبح کا سویرا اسی کے دامن میں
وہ جس کا پیراہن میلا دکھائی دیتا ہے