عید
کوئی بے ساختہ احساس نہ جذبہ نہ لہک
بے دلی سی تھی عجب عید کے ہنگامے میں
رات بھر آس میں گھلتی رہی مہندی لیکن
کسی شفاف ہتھیلی نے نہ چھو کر دیکھا
سرد آنگن میں ٹھٹھرتا رہا کڑھتا رہا چاند
گرم کمروں نے ادھر کو نہ پلٹ کر دیکھا
سارا دن گھر کو سجاتے رہے آوازوں سے
اور آوازوں سے وحشت بھی بہت کھاتے رہے
ٹہنیاں سی کئی ٹوٹا کریں اندر اندر
سوکھے پتے سے بہت پیروں تلے آتے رہے
یاد کے صحن سے پتوں کو بٹورا ہم نے
چند ٹوٹی ہوئی تصویروں کو جوڑا ہم نے
کسی جوڑی ہوئی امید کو توڑا ہم نے
بے سلیقہ سا بہت عید کا ہنگام رہا
عید کے روز بھی ہم کو تو بہت کام رہا