حسن سے کم نہیں مرتبہ عشق کا

حسن سے کم نہیں مرتبہ عشق کا
وہ بھی شعلہ بدن ہم بھی آتش نوا


اک تبسم کی اوقات کیا تھی مگر
آج تک جھیلتا ہوں اسی کی سزا


پیار کی ریت پر سر خوشی کا محل
سادہ لوحی کی بھی ہو گئی انتہا


تھے کبھی نغمۂ محفل گل رخاں
آج ہم ہو گئے جنگلوں کی صدا


لاؤ مر کے بھی دیکھیں کسی راہ میں
شاید آ جائے یوں زندگی کی ادا


کوئی آنچل ہی ناظمؔ نہ تھا بخت میں
ورنہ آنسو تھے میرے گل بے بہا