ہوش و حواس و عقل سے بیگانہ نہیں ہوں
ہوش و حواس و عقل سے بیگانہ نہیں ہوں
بے شک جنوں میں غرق ہوں دیوانہ نہیں ہوں
وحشت سے مری خوف نہ کھا آ قریب آ
مجھ پر ترا خمار ہے مستانہ نہیں ہوں
مجھ میں نہ تم تلاش کرو میکشوں سکوں
میں رند بلا نوش ہوں مے خانہ نہیں ہوں
ناداں سمجھ کے مجھ پہ عنایت ہے اس قدر
اچھا ہے نگہ یار میں فرزانہ نہیں ہوں
چپ ہوں کی آپ آج بھی مجھ کو عزیز ہیں
سازش سے ورنہ آپ کی انجانا نہیں ہوں
تشنہؔ ہوں مجھ سے رکھ نہ توقع تو فیض کی
شیشہ تو دور ساغر و پیمانہ نہیں ہوں