ہوش و حواس جب سے ہمارے چلے گئے

ہوش و حواس جب سے ہمارے چلے گئے
جو یار غم گسار تھے سارے چلے گئے


اے چارہ گر وہ دیکھ ترے در سے نا مراد
بیمار عشق یاس کے مارے چلے گئے


احسان ناخدا کا اٹھانا تھا ناگوار
اس پار ہم خدا کے سہارے چلے گئے


اس بے خودی کی خیر تری جستجو میں ہم
اپنا ہی نام آپ پکارے چلے گئے


دل میں لیے شکایت بے مہریٔ جہاں
جور و جفا کے درد کے مارے چلے گئے


ہوش و حواس تاب و تواں ذوق بندگی
ہم سے یہ زندگی کے سہارے چلے گئے


دنیا سے جب روانہ ہوئے ہم گناہ گار
سر منہ چھپائے شرم کے مارے چلے گئے


اعظمؔ پلٹ کے آئیں وہ ممکن کہاں بھلا
آسودگی میں دن جو گزارے چلے گئے