ہونے کو تو دنیا میں ہیں کتنے ہی حسیں اور

ہونے کو تو دنیا میں ہیں کتنے ہی حسیں اور
لیکن نہیں تم جیسا کوئی زہرہ جبیں اور


تم پاس رہو گے تو حفاظت سے رہو گے
اس دور میں کوئی بھی نہیں مجھ سا امیں اور


دوزخ کا مجھے خوف ہے نے خواہش جنت
اب کچھ بھی محبت کے سوا دل میں نہیں اور


کیسا یہ جنوں ہے مرا کوئی تو بتائے
جانا تھا مجھے اور کہیں پہنچا کہیں اور


گر عشق کی طاقت کو کوئی لائے عمل میں
دنیا میں بنا سکتا ہے وہ خلد بریں اور


اسرار حقیقت کے عیاں مجھ پہ ہوئے ہیں
اب ہو گیا پختہ مرا ایمان و یقیں اور


شاید یہ ہے معراج مرے حسن نظر کی
وہ دور بھی ہوتے ہیں تو لگتے ہیں قریں اور


الفاظ کی خوشبو میں تخیل کو بسا کر
کہتا ہوں غزل ان کے لئے ایک حسیں اور


صدمات عزیزؔ اتنے اٹھائے ہیں جہاں میں
شاید کہ نہ ہو میری طرح کوئی حزیں اور