حصار جسم سے آزاد ہونے والا ہوں
حصار جسم سے آزاد ہونے والا ہوں
کسی کو پا کے کسی شے کو کھونے والا ہوں
جو مٹ گئے ہیں وہ اقدار جمع کرنے ہیں
بکھر گئے ہیں جو موتی پرونے والا ہوں
ہے قحط آب کا منظر تو چار سو لیکن
میں اپنی چشم حقیقت بھگونے والا ہوں
میں اپنے درد کے طوفاں دبائے سینے میں
ہنسا چکا ہوں زمانے کو رونے والا ہوں
یہ جانتا ہوں پھر اک بار کوئی کاٹے گا
وفا کی فصل پھر اک بار بونے والا ہوں
یہ جان کر بھی ندی پر نظر ٹکائے ہوں
سراب بن کے سرابوں میں کھونے والا ہوں
ہزار دن میں میں سورج بنا پھروں پھر بھی
سیاہ رات کے مقتل میں کھونے والا ہوں
تھپک تھپک کے سلاتے ہیں اس لئے ہی نہالؔ
کہ خواب جان گئے ہیں میں سونے والا ہوں