حضرت عمر فاروق ؓ کا اعزاز اور سعادت:نبی اکرمﷺ کی زبانی

ماشاءاللہ !کیا اعزازاور کتنی بڑی سعادت ہے!ان دو عظیم ہستیوں کے سوا کون ہےجو اس عظیم المرتبت مقام کا مستحق ہو!کسی کا درجہ ان تک نہیں پہنچا۔حدیث میں حضور اکرم ﷺ نے گائے اور بھیڑیےکی گفتگو کا تذکرہ کیا۔لوگوں نے اس پر تعجب کا اظہارکیا تو  آپ ﷺنے فرمایا:’’ میں اس پر ایمان رکھتا ہوں اور ابوبکرؓاور عمرؓ اس پر ایمان رکھتے ہیں۔‘‘

پھر اندازہ کرلیجیےکہ یہ دو حضرات کس مرتبےکے انسان ہیں۔حضرت عمر ؓکی مزید عزت افزائی حضور اکرم ﷺکے اس قول میں بھی ہے:

’’ بے شک عمرؓ کی رضا رحمت باری ہے۔‘‘

ایک مرتبہ حضرت عمرؓنے رسول ﷺسے عمرہ پر جانےکی اجازت طلب کی۔آپ ﷺنے اجازت دیتے ہوئے حضرت عمر ؓ سے کہا:

’’اے میرے پیارے بھائی!اپنی نیک دعاؤں میں ہمیں بھی شامل رکھنااور ہمیں بھول نہ جانا‘‘۔

دیکھئے دعا کی فرمائش کرکے حضور اکرم ﷺ نے حضرت عمر ؓ کو گویا اپنے لطف و کرم سے سرفراز کردیا۔کتنا قابل رشک مقام ہےکہ اللہ کے نبیؐ دعا کی فرمائش کر رہے ہیں اور ساتھ کہہ  رہے ہیں کہ بھول نہ جانا۔اے عمرؓ!تیرا مرتبہ کتنا بلند اور تیری شان کتنی عظیم ہے!عمر ؓ کے لیے یہ اعزاز ہی کافی تھا کہ آپ حضور ﷺ کے معتمد وزیر تھے۔حضور ﷺکی پیشین گوئیوں میں سے ایک پیشین گوئی کا تذکرہ اسدالغابہ میں ان الفاظ میں آیاہے:

’’میرے بعد تم کچھ نئے کام کرو گے۔ان میں سے مجھے سب سے محبوب وہ کام ہوں گے جو عمر ؓجاری کرےگا‘‘

حضور اکرم ﷺ ابوبکر ؓاور عمرؓ سے قریبی تعلق ِخاطر رکھتے تھے۔جو قدرومنزلت ان دونوں بزرگوں کو دربارِرسالت میں حاصل تھی وہ کسی اور کو میسر نہ تھی۔

آنحضورﷺکا یہ قول حدیث کے مستند مجموعوں میں دیکھا جا سکتا ہے:

’’ھذانا السمع والبصر‘‘

یعنی یہ دونو ں(ابوبکرؓ و عمرؓ)میرے لیے کان اور آنکھ کا درجہ رکھتے ہیں‘‘

مندرجہ بالا احادیث واقوال بڑے قیمتی ہیں مگر ان سے بھی زیادہ بیش بہا شہادت حضور اکرم ﷺ کا یہ ارشاد ہے جسے محدثین نے حدیث حسن غریب کا درجہ دیا ہےاور جو ترمذی شریف،مسنداحمد،مستدرک حاکم کے علاوہ ابن حیان اور طبرانی نے بھی نقل کیاہے:

’’لو کان نبیاَ بعدی لکان عمر ‘‘۔

’’یعنی اگر میرے بعد کوئی نبی ہونا ہوتا تو وہ عمر ؓ ہوتا۔‘‘

مسلمانو ں کی پوری جماعت میں یہ شرف سوائے حضرت عمر ؓکے کسی کے حصے میں نہ آیا۔اعزازات بے شمار اور درجہ شرف ومجد بے انتہا ہیں۔آنحضور ﷺ نے انعامات ِالٰہیہ کا تذکرہ کرتے ہوئے حضرت ابوبکرؓ اورحضرت عمر ؓ کو مخاطب کر کے فرمایا:

’’ الحمدللہ الذی ایدنی بکما‘‘

’’یعنی حمدوتعریف اس اللہ کے لیے ہےجس نے اپنے دونوں سے میری تائید فرمائی۔‘‘

متعلقہ عنوانات