ہوا ایک قلم ہے

میں نے ہواؤں کا گیت سننا چاہا
مگر سن نہ سکا


گیت بازاری بھاؤ تاؤ سے کتراتے ہیں
اور یہاں وحشت زدہ آوازوں میں سے
ترنم کی علیحدگی کا کوئی بندوبست نہیں


جب میں سویا ہوا تھا
ہوا بھوکے بچوں کی لوری بن گئی تھی
میں ہوا کو معطر محسوس کرنا چاہتا ہوں
مگر یہ ہمیشہ
جھلسی ہوئی لاشیں ڈھونڈ لیتی ہے
یہ تپتی ہوئی لو میں
اور سردیوں کی اداس ٹھٹھرتی ہوئی شام کو
لوگوں کے پھٹے ہوئے کپڑوں میں گھس جاتی ہے


ہوا ایک بہترین خطیب ہے
جب ہم
گرم یا سرد ہونے لگیں
یہ تقدیر کے الفاظ بن کر
ہمارے کانوں میں چھپ جاتی ہے


ہوا ایک قلم ہے
جو پرانی کہانی میں ہر روز نئے کردار گاڑ دیتا ہے