ہوا چلی تو بہت دیر تک رکی ہی نہیں
ہوا چلی تو بہت دیر تک رکی ہی نہیں
تمہاری یاد کہ جیسے کبھی تھمی ہی نہیں
سماعتوں میں مری گونجتی رہی ہر دم
وہ ایک بات جو اس نے کبھی کہی ہی نہیں
نہ جانے کس لئے اس کا ہی انتظار رہا
وہ ایک شخص کہ جس سے کبھی ملی ہی نہیں
ہوا نے جب بھی اڑایا گئی فلک کی طرف
عجیب خاک تھی جو خاک میں ملی ہی نہیں
کبھی لگا کہ بہت تیز رو رہے لمحے
کبھی لگا کئی صدیوں سے میں چلی ہی نہیں
کلی بھی دل میں محبت کی اک ہنسی تھی مگر
کبھی وہ باغ تمنا میں تو کھلی ہی نہیں
میں اک سفیر ہوں رضیہؔ گداز لہجوں کی
خفا کسی سے کبھی دیر تک رہی ہی نہیں