ہر خواب یاد رکھنے کا پیدا سبب کریں
ہر خواب یاد رکھنے کا پیدا سبب کریں
جو آج تک نہ کر سکے وہ کام اب کریں
ہونے لگا یہاں پہ بلاؤں کا پھر نزول
اب کچھ نہ کر سکیں گے چلو ذکر رب کریں
جگنو مثال خود کو جلائیں گے رات بھر
معمور اس طریقے سے وہ تیرہ شب کریں
ہم نے تو اس کا ساتھ نبھایا ہے دیر تک
اب اس سے دور جانے کا کار عجب کریں
سب جیت پر مناتے ہیں اکثر یہاں پہ جشن
ہم کیوں بپا نہ ہار پہ جشن طرب کریں
آسودہ جسم و جاں ہوں کبھی شہر سنگ میں
وا اس امید پر نہ یہاں چشم و لب کریں
لہروں کے ساتھ آنے لگی ریت پے بہ پے
کب تک دراز ہم یوں ہی دست طلب کریں
دھندلا گیا ہے عز و شرف کا ہر ایک نقش
اب کس امید پر یہاں فکر نسب کریں