ہر فصیل راہ کو زیر و زبر کرتے ہوئے

ہر فصیل راہ کو زیر و زبر کرتے ہوئے
میں یہاں پہنچا ہوں قرنوں کا سفر کرتے ہوئے


تشنگی اب تک نہ سیرابی کی منزل پا سکی
زندگی گزری طواف بام و در کرتے ہوئے


بول اے باد خزاں کیوں آ گیا اتنا جلال
کچھ نہ سوچا باغ کو زیر و زبر کرتے ہوئے


جسم سارا بن گیا خونیں قبا کا آئنہ
خار زار زندگی کو رہ گزر کرتے ہوئے


کتنے موسم کتنے روز و شب لہو کرنے پڑے
نخل جاں کو حامل برگ و ثمر کرتے ہوئے


ایک لمحہ بھی نہیں لگتا گلوں کی شاخ کو
پھول سے الفاظ کو نذر شرر کرتے ہوئے


آسماں چھونے کی لالچ میں زمیں پر آ گئے
جوش مارا خون نے کہسار سر کرتے ہوئے


نقش پا چھوڑے تھے پیچھے آنے والوں کے لیے
خاک میں گم ہو گئے لیکن خبر کرتے ہوئے