حقیقتوں کے مماثل مجاز کرتا نہیں

حقیقتوں کے مماثل مجاز کرتا نہیں
میں بے جواز کبھی اعتراض کرتا نہیں


مجھے خبر ہے مقدر کے استعارے کی
میں اپنے دست طلب کو دراز کرتا نہیں


ہر ایک غیر سے کہتا ہے وصف سارے مرے
مگر وہ شخص کہ خود مجھ پہ ناز کرتا نہیں


کچھ ایسے لفظ ہیں جو لوح دل پہ لکھتا ہوں
ہر ایک شعر سپرد بیاض کرتا نہیں


اک آئنہ سا مرے روبرو جو رہتا ہے
میں رازدار سے راز و نیاز کرتا نہیں


جو دل نہ چاہے تو جھکتی نہیں جبیں میری
گناہ گار ہوں رشک نماز کرتا نہیں


شب سیاہ کو صفدرؔ شب سیاہ کہا
میں بے لحاظ خود اپنا لحاظ کرتا نہیں