ہمیں سفینۂ ہستی کا رہنما نہ ملا

ہمیں سفینۂ ہستی کا رہنما نہ ملا
خدا کو ساتھ لیا کوئی ناخدا نہ ملا


سکون قلب ملا بے نیازیاں پائیں
اٹھائے ہاتھ جو تیری طرف تو کیا نہ ملا


کسی کی شرکت اغیار کب گوارا تھی
خدا کا شکر کوئی درد آشنا نہ ملا


تڑپ تڑپ کے ترے بسملوں نے مقتل میں
بڑھائے ہاتھ مگر دامن قضا نہ ملا


ملی تھی آنکھ تو پھر تاب دید بھی ملتی
تجلیوں کے تماشہ میں کچھ مزا نہ ملا


تھا اضطراب میں وہ لطف زندگی مضمر
پھر اس کے بعد کسی بات میں مزا نہ ملا


تمہاری شوخیٔ تقریر کا تو کیا کہنا
جواب صاف کبھی میری بات کا نہ ملا


نگاہ شرم سے نیچی رہی پشیماں کی
وہ بے وفا جو ملا بھی تو بے وفا نہ ملا


شریک حال اب احباب تک نہیں ہوتے
شمیمؔ ہم کو بھی قسمت سے کیا زمانہ ملا