دنیا کی خواہشات میں الجھا نہیں ہوں میں

دنیا کی خواہشات میں الجھا نہیں ہوں میں
اڑ جائے جو ہوا میں وہ تنکا نہیں ہوں میں


بیمار ان کو دیکھ کے خاموش ہو گیا
اتنا کہا زبان سے اچھا نہیں ہوں میں


آتا ہے مجھ کو مرکز توحید کا خیال
منہ سے نکل نہ جائے کہ بندہ نہیں ہوں میں


ہر دم یہی دعا ہے کہ بیتابیاں رہیں
یہ حال ہو گیا ہے کہ اپنا نہیں ہوں میں


آساں نہیں ہے میری حقیقت کو جاننا
مل جائے جو سبھوں کو وہ رستہ نہیں ہوں میں


میرے ہی دم سے ہے یہ مرے دل کی بیکلی
اپنے مرض کا آپ مداوا نہیں ہوں میں


ہے عافیت میں جان جو ملتا نہیں کوئی
اچھا ہے یہ شمیمؔ کہ اچھا نہیں ہوں میں