ہمارے کام الٹے پڑ گئے ہیں

ہمارے کام الٹے پڑ گئے ہیں
سبھی کے سرد لہجے پڑ گئے ہیں


تمہاری بات سنتے ہی اچانک
مرے سب رنگ پھیکے پڑ گئے ہیں


کسی تصویر پر ہے کام جاری
کئی آنکھوں پہ حلقے پڑ گئے ہیں


تری آنکھوں کا پیچھا کرتے کرتے
مرے اعصاب ڈھیلے پڑ گئے ہیں


تمہاری کر رہیں ہیں جب سے غیبت
در و دیوار نیلے پڑ گئے ہیں


فقط وہ مسکرائے جا رہا ہے
تبھی تو پھول سستے پڑ گئے ہیں


لباسوں کی دلیلیں دینے والو
یہاں کردار میلے پڑ گئے ہیں