ہم نشیں ایسی کوئی تدبیر ہونی چاہیے
ہم نشیں ایسی کوئی تدبیر ہونی چاہیے
میرے قبضے میں مری تقدیر ہونی چاہیے
ختم ہونا چاہیے اب قصۂ دیر و حرم
خانقاہ زندگی تعمیر ہونی چاہیے
امتیاز کفر و ایماں وقت پر ہو جائے گا
دعوت مے خانہ عالمگیر ہونی چاہیے
اور بڑھ جائیں ذرا تشنہ لبی کی تلخیاں
دور ساغر میں ابھی تاخیر ہونی چاہیے
اس طرح تو نظم عالم منتشر ہو جائے گا
خود پرستی قابل تعزیر ہونی چاہیے
رہزن ایماں ہیں دونوں شیخ ہو یا برہمن
ان سے بچنے کی کوئی تدبیر ہونی چاہیے
مرکز حسن و محبت مطلع مہر و وفا
دل کے آئینے میں اک تصویر ہونی چاہیے
تا بہ کے یہ لن ترانی ہوشیار اے برق طور
آرزوئے دید کی توقیر ہونی چاہیے
تا بہ کے یہ بے نیازی اے حریفان سخن
اب زبان رازؔ عالمگیر ہونی چاہیے