ہم بزرگوں سے ڈرنے والے ہیں

ہم بزرگوں سے ڈرنے والے ہیں
واقعۃً بچھڑنے والے ہیں


رات ہوتے ہی نیند آتی ہے
یعنی سب خواب مرنے والے ہیں


وہ بھی خود کو سدھار بیٹھی ہے
اور ہم بھی سدھرنے والے ہیں


کوئی امکان تو نہیں پھر بھی
اس گلی سے گزرنے والے ہیں


میری دہلیز سے اڑے جگنو
تیری چوکھٹ پہ مرنے والے ہیں


عشق نقصان اٹھائے گا احمدؔ
آپ ہم سے مکرنے والے ہیں