ہم بچھڑ کے تم سے بادل کی طرح روتے رہے

ہم بچھڑ کے تم سے بادل کی طرح روتے رہے
تھک گئے تو خواب کی دہلیز پر سوتے رہے


زندگی نے ہاتھ سے خنجر نہ رکھا ایک پل
ہم قتیل غمزہ و ناز بتاں ہوتے رہے


لوک لہجے کا سہانا پن سخن کی نغمگی
شہر کی آبادیوں کے شور میں کھوتے رہے


کیوں متاع دل کے لٹ جانے کا کوئی غم کرے
شہر دلی میں تو ایسے واقعے ہوتے رہے


سرخیاں اخبار کی گلیوں میں غل کرتی رہیں
لوگ اپنے بند کمروں میں پڑے سوتے رہے


محفلوں میں ہم رفیق و راز داں سمجھے گئے
گھر کے آنگن میں مگر تنہائیاں بوتے رہے