ہے جمال حسن کا پرتو صنم خانہ کہیں

ہے جمال حسن کا پرتو صنم خانہ کہیں
بت کدہ کعبہ کہیں ہے اور مے خانہ کہیں


سیدھے رستہ سے بھٹک جائے نہ فرزانہ کہیں
آ نہ جائے عقل کی باتوں میں دیوانہ کہیں


یہ بھی کوئی زندگی میں زندگی ہے ہم نفس
دل کہیں ہے ہم کہیں ہیں اور جانانہ کہیں


تابش برق ستم سے یا الٰہی جل نہ جائے
عندلیب زار کا گلشن میں کاشانہ کہیں


پھر نہ دہرائے کہیں تاریخ انجام ستم
ہو نہ جائے صبر کا لبریز پیمانہ کہیں


ان کے دامن سے لپٹ ہی جائے گی بس خاک دل
ضد پہ آ جائے نہ اپنا جوش رندانہ کہیں


کیسی اجڑی ہے یہ محفل عیشؔ ہنگام سحر
شمع کشتہ ہے کہیں اور خاک پروانہ کہیں