ہر نفس آئینہ موج فنا ہوتا ہے
ہر نفس آئینہ موج فنا ہوتا ہے
آہ کرتا ہوں تو درد اور سوا ہوتا ہے
کھنچتی جاتی ہے اسی سمت جبین جدہ
جس طرف آپ کا نقش کف پا ہوتا ہے
پھوٹ جا آبلۂ پا کہ بڑھے تیرا وقار
خار صحرا تجھے انگشت نما ہوتا ہے
جنبشیں ہونے لگیں پردۂ زنگاری میں
نالۂ عاشق دلگیر بلا ہوتا ہے
وہ نہ آئیں گے انہیں ضد ہے تمنا سے مری
میں کہوں لاکھ تو کیا میرا کہا ہوتا ہے
ہے جبیں خاک پہ اور عرش معلیٰ پہ دماغ
نقشہ آنکھوں میں ترے در کا کھنچا ہوتا ہے
سائل آیا ہے ترے در پہ خودی کو کھو کر
دیکھنا ہے مجھے کیا آج عطا ہوتا ہے
ہر روش ان کی قیامت ہے قیامت اے عیشؔ
جس طرف جاتے ہیں اک حشر بپا ہوتا ہے