یہ انقلاب ہوا جانے رونما کیسے
یہ انقلاب ہوا جانے رونما کیسے
بدل گئے تری محفل میں آشنا کیسے
تمہاری بزم میں آخر میں لٹ گیا کیسے
یہ سانحہ تو ہوا ہے مگر ہوا کیسے
ذرا یہ دیکھ کہ میرے سجود پیہم سے
مٹا تو نقش کف پا مگر مٹا کیسے
وفا کا غیر کی بھی امتحان ہو جائے
ہمارے ہوتے ہوئے اس نے یہ کہا کیسے
اٹھانے والے ہمیں بزم سے ذرا یہ دیکھ
کہ ٹوٹتا ہے غریبوں کا آسرا کیسے
میں کوئی قطرۂ شبنم تھا تابش رخ سے
وجود حرف غلط کی طرح مٹا کیسے
ہے عیشؔ ساتھ کوئی راہبر نہ ہم راہی
کٹے گی دیکھیے تنہا رہ وفا کیسے